Thursday, January 3, 2013

علامہ طاہر القادری کو مناظرے کا کھلا چیلنج


علامہ طاہر القادری کو مناظرے کا کھلا چیلنج
میں ظہیر باقر بلوچ اپنی تمام علمی و سیاسی بے بضاعتی کے باوجود شیخ الاسلام علامہ محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کو کسی بھی فورم پر مناظرہ کا کھلا چیلنج دیتا ہوں۔ میرا مؤقف ہے: کہ
علامہ صاحب موصوف کا حالیہ سیاسی تحرک بے وقت، بے معنی، اخلاقی تقاضوں کے بر عکس اور ملک سے وسیع تر مفاد کے منافی ہے۔

Tuesday, September 18, 2012

مغرب میں ہونے والے گستاخانہ واقعات کا مستقل حل۔۔۔؟؟؟



 مغرب میں ہونے والے گستاخانہ واقعات کا مستقل حل۔۔۔؟؟؟



تحریر: ظہیر باقر بلوچ

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخانہ فلم بنانے والوں کو نام نہاد اور غیر منصفانہ آزادی رائے کی چھتری کے نیچے تحفظ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یو ٹیوب پر فلم اپ لوڈ ہونے کے بعد لیبیا میں امریکی سفارت خانے کی آتشزدگی کے فوراً بعد ایک بیان میں کہا کہ آزادی رائے کی وجہ سے ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ مغربی شدت پسند ایسی بد تمیزیاں مسلسل کرتے ہیں اور انہیں اسی آزادی رائے کی فرسودہ چھتری کے نیچے پناہ دی جاتی ہے۔حالانکہ ان ملعونوں نے جو کچھ فلم میں پیش کیا ہے وہ ایک رائے ہرگز نہی بلکہ شرارت، اشتعال انگیزی، بے غیرتی، بدتمیزی اور گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک عیسائی انتہا پسند ایسی حرکتیں کر کے مسلمانوں کے خون کو کھولاتے رہیں گے اور مسلمان عوام کب تک جلوسوں اور توڑ پھوڑ سے غم و غصہ کا اظہار کرتے رہیں گے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ٹھوس بنیادوں پر اس کا حل تجویز کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب حکومت کو خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو روضہ رسول کا متولی ہونے کے ناطے گستاخانہ فلم بنانے والوں کے خلاف مقدمہ قائم کرنا چاہیے اور امریکہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ رسول اللہ کے مجرموں کو سعودی عرب کے حوالے کیا جائے تاکہ انہیں یہاں کے قانون کے مطابق سزا دی جا سکے اور اس مطالبے میں تمام اسلامی ملکوں کو سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہیے یہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے۔



Saturday, August 18, 2012

رؤیت ہلال کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تجزیہ



مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے باضابطہ طور پر اعلان کر دیا ہے کہ شوال المکرّم کا چاند نظر نہیں آیا ہے لہٰذا عید الفطر پیر کے روز ہوگی۔ ان سے حسب معمول اختلاف کرتے ہوئے مسجد قاسم علی خان پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے اپنی مسجد میں غیر سرکاری طور پر بٹھائی گئی ایک کمیٹی میں مبینہ طور بیس دستیاب شہادتوں کی بنا پر یہ اعلان کیا ہے کہ شوال المکرّم کا چاند نظر آ گیا ہے اور عیدالفطر آج بروز اتوار ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی پشاور میں حکومتی سطح پر قائم کی گئی رؤیت ہلال کی زونل کمیٹی نے مرکزی کمیٹی سے اس بنا پر اختلاف کیا ہے کہ زونل کمیٹی کو اٹھارہ شہادتیں موصول ہوئی تھیں اور مرکزی کمیٹی نے ان کی شہادتوں کو جانچے بغیر ہی اجلاس ختم کر کے اتوار کے روزے کا اعلان کر دیا۔ خیبر پختونخواہ میں قائم اے این پی کی حکومت نے مسجد قاسم علی خان کمیٹی اور زونل کمیٹی کی رائے کا ساتھ دیتے ہوئے حسبِ روایت سینٹر بشیر بلور کی زبانی یہ اعلان کرایا ہے کہ وہ مقامی علما کے ساتھ اتوار کو عید کریں گے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے سائنسی بنیادوں پر وضاحت کی ہے کہ ہفتہ کی شام کو چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ محکمہ کے مطابق چاند کی پیدائش کو پچیس گھنٹے گزرے ہیں اور جب تک چاند تیس گھنٹے کا نہ ہو نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا۔ محکمہ موسمیات نے واضح کیا کہ ہفتہ کو انسانی آنکھ تو کیا آلات کی مدد سے بھی چاند کا نظر آنا نا ممکن ہے۔ ایسا گذشتہ چند سال سے مسلسل ہوتا آ رہا ہے۔ چنانچہ پشاور شہر میں گذشتہ کئی سال سے دو عیدیں منائی جاتی ہیں۔ سرکاری طور پر عید ایک دن پہلے مسجد قاسم علی خان کمیٹی کی تقلید میں منائی جاتی ہے جبکہ شہر میں متعدد مساجد میں عید کی نماز مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق دوسرے دن پڑھائی جاتی ہے۔ مفتی پوپلزئی نے ہفتے کی رات میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بیس شہادتیں جمع ہوئی تھیں لہٰذا وہ اتوار کی عید کا اعلان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حرمین میں عید ہو تو ہمیں بھی عید کرنی چاہیے۔ مفتی منیب الرحمٰن جو کہ جمہور کی نمائندگی کرتے ہیں نے واضح کہا ہے کہ شرعی طور پر کافی شہادتوں کے موصول نہ ہونے کی بنا پر اتوار کو روزہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رؤیت ہلال جیسے معاملے کے لیے اٹھارہ بیس شہادتوں کی دستیابی شرعی طور پر کافی ہے کہ نہیں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے اور ملک کے طول و عرض میں لاکھوں لوگ عام طور پر اور ہزاروں سرکاری طور پر چاند دیکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر چاند نظر آئے تو وہ بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کو دکھائی دیتا ہے۔ اس بنا پر علما کی رائے یہ ہے کہ چاند کی رؤیت کے لیے موصول ہونے والی شہادتیں جب تک حدِ تواتر کو نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک اس کو یقینی نہیں مانا جا سکتا۔ بیس شہادتیں تو انتہائی ناکافی ہیں اور شہروں اور دیہاتوں کی آبادیوں کے تناسب کے لحاظ سے تو بالکل بے معنی ہیں۔ چاند کی رؤیت کی شہادت صاف مطلع کے علاقوں سے اس طرح موصول ہو کہ دس بیس شہروں میں سینکڑوں لوگوں کی شہادت ملے تو شہادت حدِ تواتر کو پہنچ جاتی ہے۔ جب کہ جن علما نے جمہور سے اختلاف کیا ہے اپنے بیانات کی روشنی میں وہ خود اس مسئلہ میں ابہام کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ حرمین کے ساتھ عید کرنی چاہیے دوسری طرف وہ اس کے لیے مقامی طور پر شہادتیں بھی اکٹھی کرتے ہیں۔ پہلے تو انہیں عوام پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ اتوار کی عید حرمین کی تقلید میں کر رہے ہیں یا دستیاب اٹھارہ شہادتوں کی بنا پر۔ اگر حرمین کی تقلید میں کر رہے ہیں تو شہادتوں کا اکٹھا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر حرمین کی تقلید میں نہیں بلکہ دستیاب شہادتوں کی وجہ سے کر رہے ہیں تو اس مقصد کے لیے یہ شہادتیں ناکافی ہیں۔ طلوعِ ہلال افق آسمان پر ہوتا ہے اس کے لیے ہزاروں لوگوں کی شہادتیں لازم ہیں۔ یہ گلی محلے میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی واقعہ نہیں جو چند شہادتوں کی بنا پر فیصل ہو جائے۔

(تحریر: ظہیر باقر بلوچ)

Sunday, June 17, 2012

خوشاب: لوڈ شیڈنگ اور پانی کی عدم دستیابی کے خلاف عوام کا شدید احتجاج۔ ایم این اے اور ایم پی اے بھی نمبر بنانے جا پہنچے۔ عوام کا ممران اسمبلی پر عدم اعتماد جلوس منتشر کر دیا۔


خوشاب (ظہیر باقر بلوچ) گذشتہ تین ماہ سے تاریخ کی طویل ترین لوڈ شیڈنگ اور
پانی کی مسلسل عدم دستیابی کے ستائے ہوئے شہری آج کثیر تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور ٹریفک جام کرکے اور ٹائر جلا کر وفاقی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ انجمن باڈی میکراں سرگودھا روڈ کی طرف سے دی گئی اس احتجاجی کال پر لبیک کہتے ہوئے سرگودھا روڈ کے اکثر دکاندار اور ملحقہ آبادیوں کے شہریوں کی بڑی تعداد نے جلوس میں شرکت کی اور کشمیر چوک (پرانا کٹھہ چوک) پر کم و بیش دو گھنٹے تک ٹریفک بلاک رکھی ٹائر جلائے اور وفاقی اور مقامی انتظامیہ کی غفلت اور فرض نا شناسی کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔ جب شہریوں کا احتجاجی جلوس کلمہ چوک پہنچا تو مقامی ایم این اے ملک شاکر بشیر اعوان اور ایم پی اے ملک آصف بھا بھی جلوس میں شامل ہو گئے۔ لیکن عوام ممبران اسمبلی پر عدم اعتماد کر اظہار کرتے ہوئے جلوس ختم کر کے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ جلوس میں شرکت کرنے والے شہریوں سے جب اس رویے کے متعلق پوچھا گیا تو لوگوں نے کہا کہ ان ممبران اسمبلی کا عوامی احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے کیوں کہ اگر یہ لوگ اپنی اپنی اسمبلیوں میں ہمارے مسائل کے متعلق آواز اٹھاتے تو آج معاملات یہاں تک نہ پہنچتے۔ ایم این اے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خوشاب میں ہونے والی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ خلاف آواز اٹھانی چاہیے عوام یہ احتجاج ہی انہیں لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں یہاں ان کی شرکت کوئی معنی نہیں رکھتی۔   ایک شہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خوشاب شہر میں گذشتہ تیس سال سے واٹر سپلائی کے پائپ نہیں بدلے گئے۔ پرانے بوسیدہ پائپ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے جب کبھی شہریوں کو پانی دیا مہیا کیا بھی جاتا ہے تو وہ بدبو دار اور بد رنگ ہوتا ہے۔ جو شرعی طہارت کے بھی کام نہیں آتا۔ ایم پی اے صاحب نے آج تک صوبائی اسمبلی میں اس کے خلاف آواز  بلند نہیں کی عوام نے یہ احتجاج اس لیے نہیں کیا کہ ممبران اسمبلی یہاں نمبر بنانے آ جائیں۔ یہ احتجاج در حقیقت انہیں لوگوں کے رویوں کے خلاف ہے۔ 

Monday, June 4, 2012

معروف شاعر اور مزدور اسلم ساغر چشتی مکہ کول مائن میں دم گھٹنے سے جاں بحق



خوشاب (ظہیر باقر بلوچ) خوشاب کوہستان نمک کے دامن میں واقع مکہ مائنز میں کام
کے دوران گیس سے دم گھٹنے کی وجہ سے خطہ کے معروف اردو و پنجابی شاعر اسلم چشتی جاں بحق ہو گئے جبکہ ان کے دو مزدور ساتھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ حادثے کا شکار ہونے والے زخمیوں کو سول ہسپتال جوہرآباد پہنچا دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ مائنز پی ایم ایل این کے ایم این اے ملک شاکر بشیر اعوان کی خاندانی ملکیتی ہے۔ 

Sunday, March 18, 2012

Latest News: مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے ۔۔۔ تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ

Latest News: مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے ۔۔۔ تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ...: آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹنگ پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ اس سوال کے جواب کے لیے موجودہ ارکان پنجاب اسمبلی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لی...

مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے۔ (تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ) ۔


مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث اپنے منشور کے بر خلاف پنجاب میں تھانہ سیاست کے دروازے ایم پی ایز پر بالواسطہ طور پر  کھول دیے ۔
جن ممبران اسمبلی نے اضلاع کی سطح پر کرپشن سے با خبر ہوتے ہوئے اس سے چشم پوشی کی انہیں ٹکٹ جاری نہ کیے جائیں۔
 آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹنگ پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ اس سوال کے جواب کے لیے موجودہ ارکان پنجاب اسمبلی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے ممکنہ طور پر آخری فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید  اور میاں نواز شریف فیملی کو پاکستان میں واپس بلا کر یہاں کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی اجازت دی گئی تو مسلم لیگ ن اگرچہ اپنے اصولی موقف کی وجہ سے مقبول جماعت تھی۔ اور پنجاب میں ان کا اقتدار میں آ جانا واضح نظر آ رہا تھا۔ چونکہ پارٹی تتر بتر ہو چکی تھی اور ان کے سابقہ ہم جماعتوں کی اکثریت مسلم لیگ ق میں جا چکی تھی۔ اور پنجاب سے بڑی تعداد میں معقول اور با اعتماد دوست مزاج امیدواروں کا انتخاب یقینی طور پر ایک مسئلہ تھا۔ ادھر پنجاب بھر سے نئے مفاد پرست جو پنجاب میں مسلم لیگ ن کا اقتدار چشم تصور سے دیکھ رہے تھے جوق در جوق ٹکٹوں کے حصول کے لیے مسلم لیگ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اس دوران مسلم لیگ ن نے کرائٹیریا یہ رکھا کہ جس نے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا ہے اس کو ٹکٹ جاری نہ کیا جائے۔ لیکن برا ہو اس خاندانی سیاست کا سیاسی اب جن لوگوں نے ٹکٹوں کے حصول کے لیے اپلائی کیا ان میں اکثر ان لوگوں کےرشتہ دار تھے۔ جنہوں نے سابقہ دور میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ بنیادی طور پر مسلم لیگ ن کی یہ پالیسی غلط تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق سے جو لوگ واپس آ رہے تھے انہیں قبول کرتے اس طرح انہیں پرانے تجربہ کار پارلیمینٹیرینز کی کثیر تعداد میسر آتی جو مسلم لیگ ن کی قیادت یعنی میاں صاحبان کے مزاج سے بھی بخوبی واقف ہوتے اور رواں دور میں شروع ہی سے مسلم لیگ ن کا امیج بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے۔ جبکہ جو نئے لوگ پارٹی میں آئے  وہ پارٹی پالیسی تو کیا جمہوری مزاج سے بھی پورے طور پر آشنا نہیں تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو اپنے سابق دور میں بڑے کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور ہوئے تھے۔ اس دور میں اپنی شہبازانہ قیادت کا لوہا منوانے میں ناکامیاب نظر آئے۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس سلسلہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ان غلط انتظامی فیصلوں کا یہاں ذکر ضروری ہے۔ میاں شہباز شریف کے سابقہ دور میں پولیس مقابلوں کی بڑی شہرت تھی۔ یہ بات مشہور تھی کہ میاں صاحب نے پولیس کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ بڑے جرائم میں ملوث عادی مجرمان کو بجائے عدالتی کارروائی میں ڈالنے کے بالا ہی بالا پار کر دیا جائے۔ نہ جانے اس میں کہاں تک صداقت ہے مگر اس دور میں اکثر بدمعاش پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے جاتے تھے اور ارتکاب جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی تھی۔ چنانچہ جب مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب میں بنی تو پولیس مقابلوں میں یکسر اضافہ ہو گیا۔ مگر بے باک میڈیا کے اس دور میں یہ وار جرائم کا ارتکاب روکنے کے حوالے سے کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ میاں شہباز شریف صاحب نے آتے ساتھ ہی پنجاب پولیس کی تنخواہوں میں ۱۰۰ فیصد اضافہ کا نوٹس جاری کر دیا اس نیک کام کے نیک مقاصد اسی صورت میں حاصل کیے جا سکتے تھے کہ جب پنجاب کے اقتدار پر مسلم لیگ ن کی گرفت مضبوط ہوتی جبکہ حالت یہ تھی کہ دو ایم پی اے مل کر آسانی سے حکومت کو بلیک میل کر سکتے تھے۔  چنانچہ مرکز کی سطح پر انصاف، دیانتداری اور شفاف طرز حکومت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود مسلم لیگ ن کی بدولت کرائم ، قبضہ اور سٹاک مافیا کے ہاتھوں  لوٹ مار، جرائم اور ناانصافی کی انتہائی وحشتناک مثالیں دیکھنے میں آئیں۔ پولیس مقابلوں کی مبینہ کھلی چھٹی کی وجہ سے پولیس میں موجود  بعض جرائم پسند عناصر کے ہاتھوں بربریت کی اندوہ ناک تصویریں اور کہانیاں اخبارات نے شائع کیں۔ وزیر اعلٰی پنجاب میاں نواز شریف سے جب بھی پنجاب میں ہونے والی کرپشن اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہی کہہ کر ٹال دیا کہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے کم ہے نیز انہوں نے ضلعی سطح کے افسران تو ایماندار لگا رکھے ہیں نچلی سطح پر کرپشن ہو تو کہا نہیں جا سکتا۔ یہ جواب اس شخص کا ہے جو نچلی سطح پر ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی سے کرپشن پر بے چین ہو جایا کرتا تھا اسے سن کر حیرت سے زیادہ دکھ ہوتا ہے اور دکھ سے زیادہ حیرت۔۔۔۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے منشور کے بر خلاف پنجاب میں تھانہ سیاست کے دروازے بالواسطہ طور پر ایم پی ایز پر کھول دیے اس زہرناک پالیسی نے سٹلائیٹ میڈیا کے اس دور میں پنجاب میں اضلاع کی سطح پر ادوارِ جاہلیت جیسی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ جنہیں دہرانا بھی حساس طبیعت پر بارمحسوس ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کے خزانے کے بنچوں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سابقہ سیاسی تجربہ نہیں رکھتے۔ جو تھانے کچہری کی اور انتقامی سیاست کے عادی ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اگر مسلم لیگ ن اس دفعہ ٹکٹوں کے اجرا کے لیے انتہائی غور و فکر سے کام نہ لے گی اور بغیر سوچے سمجھے پنجاب اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کو ایک پالیسی کے تحت ٹکٹ جاری کر دے گی تو پنجاب میں بڑے پیمانے پر اپ سیٹس کا امکان ہے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ تمام اضلاع سے نچلی سطح پر کرپشن کی رپورٹیں منگوائے اور جہاں جہاں دورِ جاہلیت کی مثالیں نظر آئیں ان حلقوں کے موجودہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو دوبارہ ٹکٹ جاری کرنے سے بے دھڑک انکار کر دے۔ یہی مسلم لیگ ن کا حقیقی منشور ہے اور اسی میں مسلم لیگ ن کی بقا کا راز مضمر ہے۔