Tuesday, December 13, 2011

امریکی مفادات، جمہوریت اور پاک فوج ( 2: گذشتہ سے پہوستہ)۔۔۔۔۔ تحریر: ظہیر باقر بلوچ

اور یہ سب کچھ پاک فوج کی ذمہ داریوں میں سے تھا۔ یعنی دفاع وطن کا حصہ تھا۔ چنانچہ فوج نے اس خدمت کو بخوبی نبھایا۔ اگر امریکہ کے دفاعی اداروں کو معلومات کی فراہمی کے لیے امریکی جاسوسی اداروں کے لیے کام کرنے والے افراد خواہ حکومت کو دھوکہ دے کر ہی پاکستان آئے ہوں لیکن پاک آرمی کے لیے ان جب اے جمہوری حکومت بحال ہوئی ہے پاکستان طرح طرح کی افواہوں کی مسلسل زد پر رہا ہے۔ اور ان افواہوں کے پھیلانے میں موبائل فون سمیت رابطے کے دیگر جدید ذرائع کو استعمال کیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل تک بعض انتہائی تکلیف دہ، مایوس کن اور بے چین کر دینے والے مسیجز موصول ہوتے تھے جن کو پڑھتے ہی جن میں بین السطور بظاہر اور بالواسطۃ طور پر اداروں کو بدنام کیا جاتا۔ مجھے ایک میڈیکل کی ہونہار طالبہ کا میسیج موصول ہوا جس میں لکھا گیا تھا کہ پڑوسی ملک کے کسی غیر معروف مقام پر کسی نے نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کر دی ہے۔ اس سے آٓگے جو بات لکھی گئی تھی وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک تھی جس میں لوگوں سے مخاطب کر کے خالصتا مشتعل کرنے کے انداز میں یہ لکھا گیا تھا کہ اٹھو اور اسلام کے دشمنوں پر ٹوٹ پڑو کل حضور کو کیا منہ دکھاؤ گے کہ تمہارے سامنے حضور کی گستاخی ہوتی رہی اور تم  گھروں میں بیٹھے۔ میں نے اس طالبہ کو سمجھایا کہ یہ اشتعال انگیزی ایک ایسے مفروضے کی بنیاد پر پھیلائی جارہی ہے جو مفروضہ تصدیق کے مراحل سے بھی نہیں گزرا۔ پھر معاملہ رسول اللہ کی ذات گرامی کا ہے جس میں بات آگےکرنے کے ضمن میں تصدیق کرلینا از حد ضروری ہے۔ ورنہ انسان جھوٹ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے متعلق عمدا جھوٹ بولنے والا ایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔ طویل لوڈ شیڈنگ، ہوشربا مہنگائی، المناک دہشتگردی کے واقعات گھرائی، بوکھلائی اور بولائی ہوئی قوم کے سادہ لوح افراد کو جب پیغامات موصول ہوں گے کہ جن میں انہیں روحانی جذبات کو شدید دھچکا پہنچانے کے لیے ان کی  عقیدتوں محبتوں اورعظمتوں کے محور و مرکز کے حوالے سے انہیں برانگیختہ کیا جائے گا۔تو اس قوم کا کیا حال ہوگا۔ کتنے بھیانک نتائج سوچ کر ایسی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ مگر بحدہِ تعالٰی دشمنوں کی یہ سازشیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ اور پاکستانی عوام نے بر انگیختہ نہ ہو کر ہر ادارے کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ آج الحمد للہ پاکستان اس مقام پر کھڑا ہے کہ ملکی حدود اور خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے پر سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے۔ آج پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کا صلہ مانگ رہا ہے۔ راقم الحروف نے آج سے بہت پہلے ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد ملک کے ایک مؤقر روزنامہ میں چھپنے والے ایک تجزیہ میں یہ لکھا تھا کہ پاکستان کے ہاتھ ایک ایسا طوطا آیا ہے جس میں انکل سام کی جان ہےاور یہ کہ ریمنڈ ڈیوس سے ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جس دہشت گردی کا نیٹ ورک مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ امریکہ پاکستان کے آگے ننگا ہو جائے گا۔ پاک امریکہ تعلقات میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔ اور ایسے مواقع آئیں گے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ کے نتیجے میں اٹھانے پڑے نقصانات کے جائز ازالے کا مطالبہ کرے گا۔ اپوزیشن تو حسب عادت یہی کہہ رہی ہے کہ حکومت نے بعد دیر میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی گذشتہ چھ ماہ سے جاری تھی۔ اصل میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی منصوبہ ساز اپنے منصوبوں کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور اوچھی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں۔ میمو گیٹ سکینڈل اچھالنے کا مقصد اندرونی عدم استحکام پیدا کرنا تھا حکمرانوں کوغدارقرار دلوانے اور فوج کو مشتعل کر کے بارکوں سے باہر لانے کے حوالے سے اسے ایک ایسا اقدام تھا جسے فیصلہ کن سمجھا گیا تھا میمو گیٹ سکینڈل کے اثرات توقع کے عین مطابق نکلے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف خود عدالت میں پیش ہوئے اور اس معاملہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں بلانے کام مطالبہ کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ ن نے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ پالیمنٹ بے اثر ہو چکی ہے قبل ازوقت انتخابات کروائے جائیں ۔ یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ حکومت آج گئی کہ کل۔ اسی دوران حکومت کوکمزور پا کر دشمن نے سرحدی چوکی پر حملہ کرکے کئی فوجیوں کو شہید کر دیا ان خیال شاید یہ تھا کہ حکومت کے کمزور ہونے کی وجہ سے فوج اقتدار پرقبضہ کر لیگی تاکہ ملک کا دفاع بہتر طور پر کیا جاسکے  لیکن یہ ایک انتہائی بچگانہ خیال تھا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اور قوم متحد ہو گئی۔ حکومت مضبوط ہو گئی۔ پارلیمنٹ بااثر ہو گئی۔ کچھ لوگ اب بھی اس بچگانہ خیال کا اطہارخواہش کی طرح کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان پرحملہ کرے گا۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اس کام کی اجازت تو امریکہ کو اس کی پارلیمنٹ بھی نہیں دے گی۔ پھر قدیم امریکی پالیسی جو بھی رہی ہو اس کی تازہ تر پالیسییوں کے مطابق ایک منتخب جمہوری حکومت پر حملہ کرنا امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی خواہش کے باوجود وائیٹ ہاؤس میں بیٹھے ڈیموکریٹس اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے کہ پاکستان سے بگاڑی جائے۔ پھر نئی جنگ کا تو امریکہ متحمل ہر گز نہیں ہو سکتا ۔افغانستان میں رکھی ہوئی فوج کو امریکہ پاکستان کے خلاف ادتعمال کرنے کا جان جوکھوں کا کام ہر گز نہیں کرے گا۔ پھرامریکہ کی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ اپنی فوج کو کچھ عرصہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں رکھا جائے لیکن خواہش نا ممکن الحصول ہونے کی صورت میں اسے پاکستانی شرائط پر بھی اگر پاکستان کا تعاون حاصل کرنا پڑا تو وہ ضرور حآصل کرے گا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کا قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ بے اثر ہو گیا ہےاس سمبلی کے مدت پوری کرنے کے امکانات زیادہ قوی ہو گئے ہیں۔ سینیٹ کا الیکشن مسلم لیگ ن کو میدان میں لڑنا پڑے گا اور وہ بھی جنرل الیکشنز سے پہلے۔

Saturday, December 10, 2011

امریکی مفادات، جمہوریت اور پاک فوج۔۔۔۔۔۔ تحریر: ظہیر باقر بلوچ

یہ اب کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ امریکہ ایشیا کے وسطی، جنوبی اور جنوب مغربی حصے میں موجود بے پناہ قدرتی وسائل کے حصول کے لیے اس خطے میں آیا ہے۔ گذشتہ صدی میں سن ۸۰ کے عشرے میں جب روس نے افغانستان کی   سوشلسٹ حکومت کی طرف سے اندرونی شورشیں فرو کرنے کے لیے طلب کی گئی معاونت کے نتیجے میں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں تو امریکہ نے پاکستان میں نئی نئی قائم ہونے والی فوجی حکومت کی مدد سے روس کے افغانستان سے انخلا کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے امریکی مفکرین نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دی جائے اور جہاد کے نام پر اسرائیل کے خلاف برسرپیکار عرب جنگجوؤں کو افغانستان میں افغان اور روسی افواج کے خلاف استعمال کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جنرل ضیاالحق کو استعمال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اسلام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اور شدت پسند اور فرقہ باز گروہوں کے نمائندوں کو حکومتی امور میں مداخلت کی کھلی چھٹی دی۔ ضیاالحق جب اقتدار پر قابض ہوا تو اس کا استقبال کرنے والوں میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔  مردِ مومن  مردِ حق۔۔۔ ضیاالحق ضیاالحق کا استقبالی نعرہ جماعت اسلامی ہی کی جانب سے دیا گیا۔ امریکہ سے روپیہ آ آ کر شدت پسند مذہبی گروہوں کے سرغنوں کی جیبوں میں بھرنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں ایسی کئی تنظیمیں وجود میں آگئیں جو دوسرے مسالک کے مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے لگیں۔ جوق درجوق لوگ جہادِ افغانستان میں شرکت کرنے کے لیے افغانستان جاتے وہاں سے گوریلا لڑائی کی تربیت حاصل کرتے کچھ افغانستان میں افغان اور روسی افواج کے ساتھ لڑائی میں شریک ہوجاتے اور کچھ پاکستان واپس آکر یہاں فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے۔ ضیاالحق کی زیر نگرانی پاک آرمی کی کاوشوں سے روس افغانستان سے نکل گیا۔ اور اس کے بعد افغانستان میں افراتفری کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ امریکہ کا پروگرام یہی تھا کہ افغانستان میں افراتفری رہے یا ایک ایسی حکومت ہو جو اسلام کے نام پر کچھ ایسے گل کھلائے جو پوری دنیا میں اسلام کو بھی بدنام کریں اور اپنی حرکتوں سے امریکہ کو خطے میں مداخلت کا جواز بھی فراہم کرے۔ یہ فرض طالبان نے بخوبی انجام دیا۔ عراق کویت جنگ کے نتیجے میں عرب علاقوں میں امریکی افواج کی آمد کے رد عمل کے طور پر وجود میں آنے والی القاعدہ افغانستان میں آکر امریکہ کی توجہ افغانستان کی طرف مبذول کرانےکا  فریضہ انجام دینے لگی۔ طالبان بعض ایسی حرکات کرنے لگے کہ جنہوں نے عالمی سطح پر اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ مغربی میڈیا کو اسلام اورطالبان پر کھلی تنقید کرنے کا موقع فراہم کیا۔ القاعدہ اور طالبان کی کارروائیوں نے پوری دنیا کی توجہ افغانستان کی طرف مبذول کرادی اور نائن الیون کے حملے نے امریکہ کو افغانستان میں پر حملے کا مضبوط جواز فراہم کر دیا۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ اس حملہ سے عین پہلے اس وقت کا پاکستانی جرنیل پرویز مشرف منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر چکا تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے کا ظاہری مقصد افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز، طالبان اور القاعدہ کا خاتمہ تھا۔ افغانستان پر حملے سے پہلے انہوں نے بذریعہ پاکستان افغانستان میں طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن طالبان کی جانب سے اسامہ حوالے نہ کرنے پر ڈٹ جانے کی وجہ سے امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہو گیا۔ یہ تو ظاہری اسباب تھے لیکن جیسا کہ بعد ازاں کے امریکی اقدامات اور افغانستان سے افواج کے انخلا کو مختلف حیلوں سے ٹالنے سے ظاہر ہوا کہ امریکہ یہاں کے قدرتی وسائل کے متعلق مکمل جغرافیائی معلومات اکٹھا کرنے، ان معدنی وسائل کو اپنے استعمال میں لانے کی غرض سے یہاں اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے یہاں آیا تھا۔ اب جبکہ طاہری مقصد یعنی اسامہ بن لادن ہلاک ہو چکا ہے پھر بھی امریکہ یہاں سے جانے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کر رہا ہے اور مخلتف حیلوں اور بہانوں سے پاکستانی علاقوں میں داخل ہونے کے لیے بے سر و پا اور اوچھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ پس پردہ مقاصد کی تکمیل ابھی نہیں ہو سکی ہے۔ افغانستان میں جب امریکی افواج داخل ہوئی تھیں اس وقت امریکہ میں ری پبلکن پارٹی بر سر اقتدار تھی۔ اب جبکہ اس جنگ کو ختم کرنے کا اخلاقی موقع آن پہنچا ہے امریکہ میں ڈیموکریٹس کی حکومت ہے۔ ڈیمو کریٹس جنگ کے جلد خاتمے کے حق میں ہیں جبکہ امریکی محکمہ دفاع ابھی اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے اور اس کا دائرہ کار پاکستان تک بڑھانا چاہتا ہے۔ مگر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس کے عزائم  کی راہ میں سب سے  بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ جب مشرف ایک زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑ کر ملک سے باہر گیا اور یہاں جمہوریت بحال ہوئی تونئی حکومت کے سامنے سب سے پہلے جو مطالبہ امریکہ کی طرف سے رکھا گیا وہ آئی ایس آئی کا دائرہ کار محدود کرنے کے متعلق تھا۔ ادارے کو فوج کی نگرانی سے نکال کر سول حکومت کی نگرانی  لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس پر عمل کرنے کا عندیہ وزیراعظم گیلانی نے دے دیا تھا لیکن پھر انہیں اس دعوے سے فورا ہی رجوع کرنا پڑا۔ جب امریکہ کو یہاں دال گلتی نظر نہ آئی تو موجودہ حکومت میں بعض کلیدی عہدوں پر فائز لوگوں کی مدد سے پاکستان میں کثیر تعداد میں امریکیوں کو لا کر بڑے شہروں میں ٹھہرانے  کا پروگرام بنایا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں امریکی پاکستان لائے گئے کہ ہر طرف سے بلیک واٹر کا شور بلند ہونا شروع ہو گیا۔ عوامی جذبات کے ترجمان رہنما احتجاج کرنے لگے۔ ادھر امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی دھڑا دھڑ امریکیوں کو ویزے جاری کر کے پاکستان بھجوا رہے تھے تو ادھر پاک آرمی اور آئی ایس آئی آنے والے امریکیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ مختلف شعبوں میں تکنیکی ماہرین اور نہ جانے کس کس زمرے میں شامل ہو کر پاکستان آنے والے ان امریکی جاسوسوں کا مقصد پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ  دینا، اداروں پر سے عوام کے متزلزل اعتماد کو مکمل طور پرختم کرنا۔ مختلف مکاتب فکر، مسالک اور لسانی و علاقائی گروہوں کو آپس میں لڑانا اور فوج سے برسرپیکارکرنا تھا۔ انہیں جاسوسوں میں سے ایک ریمنڈ ڈیوس بھی تھا پاکستانی سیکورٹی اداروں کی کڑی نگرانی سے بوکھلا کر دوشہریوں کو قتل کر بیٹھا اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ ریمنڈ ڈیوس سے برآمد ہونے والے ریکارڈ اور معلومات سے یہ ظاہر ہو گیا کہ سفارت کار کے روپ میں وہ ایک جاسوس تھا جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے جیسی مذموم سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سی آئی اے اور آئی ایس آئی میں جاری سرد جنگ کھل کر سامنے آگئی۔  جس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ پاک فوج اور بالخصوص سیکورٹی اداروں کے لیے یہ گہرے امتحان کے دن تھے انہیں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑا۔ امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنا۔ دہشت گردوں کی طرف سے ہونے والے رقیق حملوں کا مقابلہ کرنا اور انہیں ختم کرنا اور سول حکومت میں امریکی عزائم کی راہ ہموار کرنے والے عناصر پر نظر رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    جاری ہے

Wednesday, December 7, 2011

Bilawal meets Gillani on Current Situation.

ISLAMABAD: The Chairman Pakistan Peoples Party Bilwal Bhutto Zardari met Prime Minister this evening and  discussed about the health of President Zardari.
He told the Premier that he was satisfied about the Presidents health, doctors have declared his condition satisfactory, he added.
PPP spokesmen told the media that President have a minor heart attack and he has to undergo an operation in Dubai.

Latest News: صدرِ آصف علی زرداری ۔۔۔۔۔۔ بیمار۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ فرار...

Latest News: صدرِ آصف علی زرداری ۔۔۔۔۔۔ بیمار۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ فرار...: صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری گذشتہ شب دل کا ہلکا دورہ پڑنے کی وجہ سے فوری طور پر ائیر ایمبولینس کے ذریعے دوبئی روانہ ہو گئے ہیں۔ جہاں آج ...

صدرِ آصف علی زرداری ۔۔۔۔۔۔ بیمار۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ فرار۔۔۔۔۔۔ چہ مگوئیاں و قیاس آرائیاں

صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری گذشتہ شب دل کا ہلکا دورہ پڑنے کی وجہ سے فوری طور پر ائیر ایمبولینس کے ذریعے دوبئی روانہ ہو گئے ہیں۔ جہاں آج ان کی اینجیو پلاسٹی ہو نے والی ہے۔
صدر کے اچانک بیمار ہو کر بیرونِ ملک چلے جانے کے حوالے سے اندرون و بیرونِ ملک میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ صدر مملکت بیمار نہیں ہوئے خطرے کی بو سونگھ کر پتلی گلی سے نکل گئے ہیں۔ 
ایک غیر ملکی اخبار نے دعوٰی کیا ہے کہ صدر بیماری کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیں گے کیونکہ ان پر میمو گیٹ سکینڈل کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ ہے۔ 
پاکستانی صحافی رؤف کلاسرا نے اپنی ایک نیٹ ریپورٹ میں کہا ہے کہ یکم اور دو سسمبر کی درمیانی رات ایوان صدر میں اس وقت بہت سراسیمگی پھیل گئی جب سب فون لائنیں بند کر دی گئیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سپریم کورٹ میمو گیٹ سماعت کے بعد صدر کو شاید گرفتار کیا جارہا ہے۔ 
ایوان صدر کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے کہ صدر مملکت اپنے معمولی چیک اپ کے لیے دوبئی گئے ہیں۔ انہیں کوئی خاص تکلیف نہیں ہے۔