Sunday, March 18, 2012

Latest News: مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے ۔۔۔ تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ

Latest News: مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے ۔۔۔ تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ...: آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹنگ پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ اس سوال کے جواب کے لیے موجودہ ارکان پنجاب اسمبلی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لی...

مسلم ن آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹیں سوچ سمجھ کر جاری کرے۔ (تجزیہ: ظہیر باقر بلوچ) ۔


مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث اپنے منشور کے بر خلاف پنجاب میں تھانہ سیاست کے دروازے ایم پی ایز پر بالواسطہ طور پر  کھول دیے ۔
جن ممبران اسمبلی نے اضلاع کی سطح پر کرپشن سے با خبر ہوتے ہوئے اس سے چشم پوشی کی انہیں ٹکٹ جاری نہ کیے جائیں۔
 آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹنگ پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ اس سوال کے جواب کے لیے موجودہ ارکان پنجاب اسمبلی کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے ممکنہ طور پر آخری فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید  اور میاں نواز شریف فیملی کو پاکستان میں واپس بلا کر یہاں کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی اجازت دی گئی تو مسلم لیگ ن اگرچہ اپنے اصولی موقف کی وجہ سے مقبول جماعت تھی۔ اور پنجاب میں ان کا اقتدار میں آ جانا واضح نظر آ رہا تھا۔ چونکہ پارٹی تتر بتر ہو چکی تھی اور ان کے سابقہ ہم جماعتوں کی اکثریت مسلم لیگ ق میں جا چکی تھی۔ اور پنجاب سے بڑی تعداد میں معقول اور با اعتماد دوست مزاج امیدواروں کا انتخاب یقینی طور پر ایک مسئلہ تھا۔ ادھر پنجاب بھر سے نئے مفاد پرست جو پنجاب میں مسلم لیگ ن کا اقتدار چشم تصور سے دیکھ رہے تھے جوق در جوق ٹکٹوں کے حصول کے لیے مسلم لیگ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اس دوران مسلم لیگ ن نے کرائٹیریا یہ رکھا کہ جس نے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا ہے اس کو ٹکٹ جاری نہ کیا جائے۔ لیکن برا ہو اس خاندانی سیاست کا سیاسی اب جن لوگوں نے ٹکٹوں کے حصول کے لیے اپلائی کیا ان میں اکثر ان لوگوں کےرشتہ دار تھے۔ جنہوں نے سابقہ دور میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ بنیادی طور پر مسلم لیگ ن کی یہ پالیسی غلط تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ق سے جو لوگ واپس آ رہے تھے انہیں قبول کرتے اس طرح انہیں پرانے تجربہ کار پارلیمینٹیرینز کی کثیر تعداد میسر آتی جو مسلم لیگ ن کی قیادت یعنی میاں صاحبان کے مزاج سے بھی بخوبی واقف ہوتے اور رواں دور میں شروع ہی سے مسلم لیگ ن کا امیج بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے۔ جبکہ جو نئے لوگ پارٹی میں آئے  وہ پارٹی پالیسی تو کیا جمہوری مزاج سے بھی پورے طور پر آشنا نہیں تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جو اپنے سابق دور میں بڑے کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور ہوئے تھے۔ اس دور میں اپنی شہبازانہ قیادت کا لوہا منوانے میں ناکامیاب نظر آئے۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس سلسلہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ان غلط انتظامی فیصلوں کا یہاں ذکر ضروری ہے۔ میاں شہباز شریف کے سابقہ دور میں پولیس مقابلوں کی بڑی شہرت تھی۔ یہ بات مشہور تھی کہ میاں صاحب نے پولیس کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ بڑے جرائم میں ملوث عادی مجرمان کو بجائے عدالتی کارروائی میں ڈالنے کے بالا ہی بالا پار کر دیا جائے۔ نہ جانے اس میں کہاں تک صداقت ہے مگر اس دور میں اکثر بدمعاش پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے جاتے تھے اور ارتکاب جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی تھی۔ چنانچہ جب مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب میں بنی تو پولیس مقابلوں میں یکسر اضافہ ہو گیا۔ مگر بے باک میڈیا کے اس دور میں یہ وار جرائم کا ارتکاب روکنے کے حوالے سے کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ میاں شہباز شریف صاحب نے آتے ساتھ ہی پنجاب پولیس کی تنخواہوں میں ۱۰۰ فیصد اضافہ کا نوٹس جاری کر دیا اس نیک کام کے نیک مقاصد اسی صورت میں حاصل کیے جا سکتے تھے کہ جب پنجاب کے اقتدار پر مسلم لیگ ن کی گرفت مضبوط ہوتی جبکہ حالت یہ تھی کہ دو ایم پی اے مل کر آسانی سے حکومت کو بلیک میل کر سکتے تھے۔  چنانچہ مرکز کی سطح پر انصاف، دیانتداری اور شفاف طرز حکومت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود مسلم لیگ ن کی بدولت کرائم ، قبضہ اور سٹاک مافیا کے ہاتھوں  لوٹ مار، جرائم اور ناانصافی کی انتہائی وحشتناک مثالیں دیکھنے میں آئیں۔ پولیس مقابلوں کی مبینہ کھلی چھٹی کی وجہ سے پولیس میں موجود  بعض جرائم پسند عناصر کے ہاتھوں بربریت کی اندوہ ناک تصویریں اور کہانیاں اخبارات نے شائع کیں۔ وزیر اعلٰی پنجاب میاں نواز شریف سے جب بھی پنجاب میں ہونے والی کرپشن اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہی کہہ کر ٹال دیا کہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کے مقابلے کم ہے نیز انہوں نے ضلعی سطح کے افسران تو ایماندار لگا رکھے ہیں نچلی سطح پر کرپشن ہو تو کہا نہیں جا سکتا۔ یہ جواب اس شخص کا ہے جو نچلی سطح پر ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی سے کرپشن پر بے چین ہو جایا کرتا تھا اسے سن کر حیرت سے زیادہ دکھ ہوتا ہے اور دکھ سے زیادہ حیرت۔۔۔۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے منشور کے بر خلاف پنجاب میں تھانہ سیاست کے دروازے بالواسطہ طور پر ایم پی ایز پر کھول دیے اس زہرناک پالیسی نے سٹلائیٹ میڈیا کے اس دور میں پنجاب میں اضلاع کی سطح پر ادوارِ جاہلیت جیسی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ جنہیں دہرانا بھی حساس طبیعت پر بارمحسوس ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کے خزانے کے بنچوں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو سابقہ سیاسی تجربہ نہیں رکھتے۔ جو تھانے کچہری کی اور انتقامی سیاست کے عادی ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اگر مسلم لیگ ن اس دفعہ ٹکٹوں کے اجرا کے لیے انتہائی غور و فکر سے کام نہ لے گی اور بغیر سوچے سمجھے پنجاب اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کو ایک پالیسی کے تحت ٹکٹ جاری کر دے گی تو پنجاب میں بڑے پیمانے پر اپ سیٹس کا امکان ہے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ تمام اضلاع سے نچلی سطح پر کرپشن کی رپورٹیں منگوائے اور جہاں جہاں دورِ جاہلیت کی مثالیں نظر آئیں ان حلقوں کے موجودہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو دوبارہ ٹکٹ جاری کرنے سے بے دھڑک انکار کر دے۔ یہی مسلم لیگ ن کا حقیقی منشور ہے اور اسی میں مسلم لیگ ن کی بقا کا راز مضمر ہے۔