Saturday, August 18, 2012

رؤیت ہلال کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تجزیہ



مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے باضابطہ طور پر اعلان کر دیا ہے کہ شوال المکرّم کا چاند نظر نہیں آیا ہے لہٰذا عید الفطر پیر کے روز ہوگی۔ ان سے حسب معمول اختلاف کرتے ہوئے مسجد قاسم علی خان پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے اپنی مسجد میں غیر سرکاری طور پر بٹھائی گئی ایک کمیٹی میں مبینہ طور بیس دستیاب شہادتوں کی بنا پر یہ اعلان کیا ہے کہ شوال المکرّم کا چاند نظر آ گیا ہے اور عیدالفطر آج بروز اتوار ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی پشاور میں حکومتی سطح پر قائم کی گئی رؤیت ہلال کی زونل کمیٹی نے مرکزی کمیٹی سے اس بنا پر اختلاف کیا ہے کہ زونل کمیٹی کو اٹھارہ شہادتیں موصول ہوئی تھیں اور مرکزی کمیٹی نے ان کی شہادتوں کو جانچے بغیر ہی اجلاس ختم کر کے اتوار کے روزے کا اعلان کر دیا۔ خیبر پختونخواہ میں قائم اے این پی کی حکومت نے مسجد قاسم علی خان کمیٹی اور زونل کمیٹی کی رائے کا ساتھ دیتے ہوئے حسبِ روایت سینٹر بشیر بلور کی زبانی یہ اعلان کرایا ہے کہ وہ مقامی علما کے ساتھ اتوار کو عید کریں گے۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے سائنسی بنیادوں پر وضاحت کی ہے کہ ہفتہ کی شام کو چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ محکمہ کے مطابق چاند کی پیدائش کو پچیس گھنٹے گزرے ہیں اور جب تک چاند تیس گھنٹے کا نہ ہو نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا۔ محکمہ موسمیات نے واضح کیا کہ ہفتہ کو انسانی آنکھ تو کیا آلات کی مدد سے بھی چاند کا نظر آنا نا ممکن ہے۔ ایسا گذشتہ چند سال سے مسلسل ہوتا آ رہا ہے۔ چنانچہ پشاور شہر میں گذشتہ کئی سال سے دو عیدیں منائی جاتی ہیں۔ سرکاری طور پر عید ایک دن پہلے مسجد قاسم علی خان کمیٹی کی تقلید میں منائی جاتی ہے جبکہ شہر میں متعدد مساجد میں عید کی نماز مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق دوسرے دن پڑھائی جاتی ہے۔ مفتی پوپلزئی نے ہفتے کی رات میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بیس شہادتیں جمع ہوئی تھیں لہٰذا وہ اتوار کی عید کا اعلان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حرمین میں عید ہو تو ہمیں بھی عید کرنی چاہیے۔ مفتی منیب الرحمٰن جو کہ جمہور کی نمائندگی کرتے ہیں نے واضح کہا ہے کہ شرعی طور پر کافی شہادتوں کے موصول نہ ہونے کی بنا پر اتوار کو روزہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رؤیت ہلال جیسے معاملے کے لیے اٹھارہ بیس شہادتوں کی دستیابی شرعی طور پر کافی ہے کہ نہیں۔ قارئین کو معلوم ہوگا کہ چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے اور ملک کے طول و عرض میں لاکھوں لوگ عام طور پر اور ہزاروں سرکاری طور پر چاند دیکھنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر چاند نظر آئے تو وہ بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کو دکھائی دیتا ہے۔ اس بنا پر علما کی رائے یہ ہے کہ چاند کی رؤیت کے لیے موصول ہونے والی شہادتیں جب تک حدِ تواتر کو نہیں پہنچ جاتیں اس وقت تک اس کو یقینی نہیں مانا جا سکتا۔ بیس شہادتیں تو انتہائی ناکافی ہیں اور شہروں اور دیہاتوں کی آبادیوں کے تناسب کے لحاظ سے تو بالکل بے معنی ہیں۔ چاند کی رؤیت کی شہادت صاف مطلع کے علاقوں سے اس طرح موصول ہو کہ دس بیس شہروں میں سینکڑوں لوگوں کی شہادت ملے تو شہادت حدِ تواتر کو پہنچ جاتی ہے۔ جب کہ جن علما نے جمہور سے اختلاف کیا ہے اپنے بیانات کی روشنی میں وہ خود اس مسئلہ میں ابہام کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ حرمین کے ساتھ عید کرنی چاہیے دوسری طرف وہ اس کے لیے مقامی طور پر شہادتیں بھی اکٹھی کرتے ہیں۔ پہلے تو انہیں عوام پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ اتوار کی عید حرمین کی تقلید میں کر رہے ہیں یا دستیاب اٹھارہ شہادتوں کی بنا پر۔ اگر حرمین کی تقلید میں کر رہے ہیں تو شہادتوں کا اکٹھا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر حرمین کی تقلید میں نہیں بلکہ دستیاب شہادتوں کی وجہ سے کر رہے ہیں تو اس مقصد کے لیے یہ شہادتیں ناکافی ہیں۔ طلوعِ ہلال افق آسمان پر ہوتا ہے اس کے لیے ہزاروں لوگوں کی شہادتیں لازم ہیں۔ یہ گلی محلے میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی واقعہ نہیں جو چند شہادتوں کی بنا پر فیصل ہو جائے۔

(تحریر: ظہیر باقر بلوچ)

2 comments:

  1. ظہیر باقر بھائی ایک بہترین تجزیہ نگار ہیں ، ان کے تجزیئے ہمیشہ عوام کی توجہ کا مرکز رہے ہیں

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ محمد سبطین صاحب۔اللہ کریم آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔

    ReplyDelete